کہاں ممکن تھا میں دل سے تیری یادیں مٹا دیتا
بھلا کیسے میں جیتا پھر اگر تجھ کو بھلا دیتا
تیری رسوائی کے ڈر سے لبوں کو سی لیا ورنہ
تیرے شہرِ منافق کی میں بنیاد ہلا دیتا
کیا ترکِ وفا اس نے تو ہو گی مجبوری
جسے برسوں دعا دی تھی اسے کیسے بد دعا دیتا
خر ہوتی اگر مجھ کو نہیں ہے تو مقدر میں
اسی لمحے میں ہاتھوں کی لکیروں کو مٹا دیتا