وقت جُدائی مَر جاؤں گا کہا اُس نے چلو دیکھیں گے
خاک اُڑا کے دی مثال اُنہیں کہا اُس نے چلو دیکھیں گے
میرا عشق یوں ہی مذاق نہیں میری زندگی کا وجود ہے
نہ ملال ہوا نہ پشیماں کہا اُس نے چلو دیکھیں گے
آنکھوں میں لالی چہرے پہ اُداسی لبوں پہ خزاں کا موسم
زندگی تجھ سے جُڑی ہے اب، کہا اُس نے چلو دیکھیں گے
کوئی تو وعدہ وفا کرو کہیں تو روک جاؤ کسی بات پہ تم
میں دریا کو آگ لگا دوں گا کہا اُس نے چلو دیکھیں گے
سُن کر میرے ماتم کی خبر مُسکرایا پھر پتھر ساہو گیا نفیس
کون سا کوئی پہلی بار مَرا ہے کہا اُس نے چلو دیکھیں گے