کہو تو لوٹ جاتے ہیں
ابھی تو بات لمہوں تک ہے، سالوں تک نہیں آئی
ابھی مسکانوں کی نوبت بھی، نالوں تک نہیں آئی
ابھی تو کوئی مجبوری، خیالوں تک نہیں آئی
ابھی تو گرد پیروں* تک ہے، بالوں تک نہیں آئی
کہو تو لوٹ جاتے ہیں
چلو اک فیصلہ کرنے شجر کی اوٹ جاتے ہیں
ابھی کاجل کی دوری، سرخ گالوں تک نہیں آئی
زباں دانتوں تلک ہے، زہر پیالوں تک نہیں آئی
ابھی تو مشکِ کستوری، غزالوں تک نہیں آئی
ابھی رودادِ بےعنواں ہمارے درمیاں ہے، دنیا والوں تک نہیں آئی
کہو تو لوٹ جاتے ہیں
چلو اک فیصلہ کرنے شجر کی اوٹ جاتے ہیں
ابھی نزدیک ہیں گھر اور منزل دور ہے اپنی
مبادا نار ہوجائے یہ ہستی نور ہے اپنی
کہو تو لوٹ جاتے ہیں
چلو اک فیصلہ کرنے شجر کی اوٹ جاتے ہیں
یہ رستہ پیار کا رستہ
رسن کا دار کا رستہ
بہت دشوار ہے جاناں
کہ اس رستے کا ہر ذرہ بھی کہسار ہے جاناں
کہو تو لوٹ جاتے ہیں
چلو اک فیصلہ کرنے شجر کی اوٹ جاتے ہیں
میرے بارے ناں کچھ سوچو
مجھے تو ساتھ تمہارے امر ہونے کی حسرت ہے
مجھے طے کرنا آتا ہے یہ رسن کا دار کا رستہ
یہ آسیبوں بھرا رستہ
یہ اندھی غار کا رستہ
تمہارا نرم و نازک ہاتھ میرے ہاتھ میں ہو تو میں یہ سمجھوں
کہ جیسے دو جہاں ہوں میری مُٹھی میں
تمہارا قُرب ہو تو مشکلیں کافور ہو جائیں
یہ اندھے اور کالے راستے پُر نُور ہو جائیں
تمہارے گیسوؤں کی چھاؤں مل جائے، تو سورج سے الجھنا بات ہی کیا یے
اُٹھا لو اپنا سایا تو میری اوقات ہی کیا ہے
مجھے معلوم ہے اتنا کہ دیامِ زندگی پوشیدہ ہے ان چار قدموں میں
بُہت سی راحتیں مضمرِ ہیں اِن دشوار رستوں میں
میرے بارے ناں کچھ سوچو
تم اپنی بات بتلاؤ
کہو تو چلتے رہتے ہیں
کہو تو لوٹ جاتے ہیں