کہو تو لوٹ جاتے ہیں

Poet: Wasi Shah By: TARIQ BALOCH, HUB CHOWKI

کہو تو لوٹ جاتے ہیں
ابھی تو بات لمہوں تک ہے، سالوں تک نہیں آئی
ابھی مسکانوں کی نوبت بھی، نالوں تک نہیں آئی
ابھی تو کوئی مجبوری، خیالوں تک نہیں آئی
ابھی تو گرد پیروں* تک ہے، بالوں تک نہیں آئی
کہو تو لوٹ جاتے ہیں
چلو اک فیصلہ کرنے شجر کی اوٹ جاتے ہیں

ابھی کاجل کی دوری، سرخ گالوں تک نہیں آئی
زباں دانتوں تلک ہے، زہر پیالوں تک نہیں آئی
ابھی تو مشکِ کستوری، غزالوں تک نہیں آئی
ابھی رودادِ بےعنواں ہمارے درمیاں ہے، دنیا والوں تک نہیں آئی
کہو تو لوٹ جاتے ہیں
چلو اک فیصلہ کرنے شجر کی اوٹ جاتے ہیں

ابھی نزدیک ہیں گھر اور منزل دور ہے اپنی
مبادا نار ہوجائے یہ ہستی نور ہے اپنی
کہو تو لوٹ جاتے ہیں
چلو اک فیصلہ کرنے شجر کی اوٹ جاتے ہیں

یہ رستہ پیار کا رستہ
رسن کا دار کا رستہ
بہت دشوار ہے جاناں
کہ اس رستے کا ہر ذرہ بھی کہسار ہے جاناں
کہو تو لوٹ جاتے ہیں
چلو اک فیصلہ کرنے شجر کی اوٹ جاتے ہیں

میرے بارے ناں کچھ سوچو
مجھے تو ساتھ تمہارے امر ہونے کی حسرت ہے
مجھے طے کرنا آتا ہے یہ رسن کا دار کا رستہ
یہ آسیبوں بھرا رستہ
یہ اندھی غار کا رستہ
تمہارا نرم و نازک ہاتھ میرے ہاتھ میں ہو تو میں یہ سمجھوں
کہ جیسے دو جہاں ہوں میری مُٹھی میں
تمہارا قُرب ہو تو مشکلیں کافور ہو جائیں
یہ اندھے اور کالے راستے پُر نُور ہو جائیں
تمہارے گیسوؤں کی چھاؤں مل جائے، تو سورج سے الجھنا بات ہی کیا یے
اُٹھا لو اپنا سایا تو میری اوقات ہی کیا ہے
مجھے معلوم ہے اتنا کہ دیامِ زندگی پوشیدہ ہے ان چار قدموں میں
بُہت سی راحتیں مضمرِ ہیں اِن دشوار رستوں میں

میرے بارے ناں کچھ سوچو
تم اپنی بات بتلاؤ
کہو تو چلتے رہتے ہیں
کہو تو لوٹ جاتے ہیں

Rate it:
Views: 650
29 Sep, 2011
More Sad Poetry
ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے یہاں لیکن
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
MAZHAR IQBAL GONDAL