کہیو قاصد جو وہ پوچھے ہمیں کیا کرتے ہیں

Poet: Mir Taqi Mir By: TARIQ BALOCH, HUB CHOWKI

کہیو قاصد جو وہ پوچھے ہمیں کیا کرتے ہیں
جان و ایمان و محبت کو دعا کرتے ہیں

عشق آتش بھی جو دیوے تو نہ دم ماریں ہم
شمعِ تصویر ہیں، خاموش جلا کرتے ہیں

اس کے کُوچے میں نہ کرشورِ قیامت کا ذکر
شیخ! یاں ایسے تو ہنگامے ہوا کرتے ہیں

بے بسی سے تو تری بزم میں ہم بہرے بنے
نیک و بد کوئی کہے، بیٹھے سنا کرتے ہیں

رخصتِ جنبشِ لب عشق کی حیرت سے نہیں
مدتیں گزریں کہ ہم چپ ہی رہا کرتے ہیں

تو پری شیشے سے نازک ہے نہ کر دعویِ مہر
دل ہیں پتھر کے انھوں کے جو وفا کرتے ہیں

فرصتِ خواب نہیں ذکرِ بُتاں میں ہم کو
رات دن رام کہانی سی کہا کرتے ہیں

یہ زمانہ نہیں ایسا کہ کوئی زیست کرے
چاہتے ہیں جو بُرا اپنا، بھلا کرتے ہیں

محض ناکارہ بھی مت جان ہمیں تُو کہ کہیں
ایسے ناکام بھی بے کار پھرا کرتے ہیں!

تجھ بن اس جانِ مصیبت زدہ، غم دیدہ پہ ہم
کچھ نہیں*کرتے تو افسوس کیا کرتے ہیں

کیا کہیں میر جی ہم تم سے معاش اپنی غرض
غم کو کھایا کرے ہیں ، لوہو پیا کرتے ہیں

Rate it:
Views: 619
20 Sep, 2011
More Sad Poetry
ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے یہاں لیکن
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
MAZHAR IQBAL GONDAL