کہیں اک بھول سے جنت نکل جاتی ہے قدموں سے
کہیں اس کو بھلانے سے بھی صاحب کچھ نہیں ہوتا
کہیں آنسو بہانے سے بصارت لوٹ آتی ہے
کہیں گھر کو لٹانے سے بھی صاحب کچھ نہیں ہوتا
کہیں دریا کی موجیں فیصلہ کرتی ہیں ظالم کا
کہیں دریا پہ جانے سے بھی صاحب کچھ نہیں ہوتا
کہیں یہ خوئے خوں ریزی عقیدوں کو بدلتی ہے
کہیں مردے جلانے سے بھی صاحب کچھ نہیں ہوتا
کہیں ایڑی رگڑنے سے زمیں چشمے اگلتی ہے
کہیں گردن کٹانے سے بھی صاحب کچھ نہیں ہوتا
کہیں صحراؤں کی بنجر زمیں سونا اگلتی ہے
کہیں گندم اگانے سے بھی صاحب کچھ نہیں ہوتا
کہیں دو انگلیوں سے فیصلہ ہوتا ہے خیبر کا
کہیں بازو کٹانے سے بھی صاحب کچھ نہیں ہوتا
کہیں چلو میں غازی کی حکمراں ڈوب جاتے ہیں
کہیں حاکم بنانے سے بھی صاحب کچھ نہیں ہوتا
کہیں زور سخن قوموں کی تقدیریں بدلتا ہے
کہیں فوجیں بلانے سے بھی صاحب کچھ نہیں ہوتا
کہیں خاموشیاں بھی جیت لیتی ہیں محاذوں کو
کہیں توپیں چلانے سے بھی صاحب کچھ نہیں ہوتا
کہیں غم تا قیامت دوست کر دیتا ہے اپنوں کو
کہیں خوشیاں لٹانے سے بھی صاحب کچھ نہیں ہوتا
کہیں اپنے سخن سے اک بہن دل جیت لیتی ہے
کہیں خنجر چلانے سے بھی صاحب کچھ نہیں ہوتا
کہیں تنہائیاں رتبے عطا کرتی ہیں انساں کو
کہیں محفل سجانے سے بھی صاحب کچھ نہیں ہوتا