کہیں اک بھول سے جنت نکل جاتی ہے قدموں سے
Poet: عادل زیدی By: Faizan, Rawalpindiکہیں اک بھول سے جنت نکل جاتی ہے قدموں سے
کہیں اس کو بھلانے سے بھی صاحب کچھ نہیں ہوتا
کہیں آنسو بہانے سے بصارت لوٹ آتی ہے
کہیں گھر کو لٹانے سے بھی صاحب کچھ نہیں ہوتا
کہیں دریا کی موجیں فیصلہ کرتی ہیں ظالم کا
کہیں دریا پہ جانے سے بھی صاحب کچھ نہیں ہوتا
کہیں یہ خوئے خوں ریزی عقیدوں کو بدلتی ہے
کہیں مردے جلانے سے بھی صاحب کچھ نہیں ہوتا
کہیں ایڑی رگڑنے سے زمیں چشمے اگلتی ہے
کہیں گردن کٹانے سے بھی صاحب کچھ نہیں ہوتا
کہیں صحراؤں کی بنجر زمیں سونا اگلتی ہے
کہیں گندم اگانے سے بھی صاحب کچھ نہیں ہوتا
کہیں دو انگلیوں سے فیصلہ ہوتا ہے خیبر کا
کہیں بازو کٹانے سے بھی صاحب کچھ نہیں ہوتا
کہیں چلو میں غازی کی حکمراں ڈوب جاتے ہیں
کہیں حاکم بنانے سے بھی صاحب کچھ نہیں ہوتا
کہیں زور سخن قوموں کی تقدیریں بدلتا ہے
کہیں فوجیں بلانے سے بھی صاحب کچھ نہیں ہوتا
کہیں خاموشیاں بھی جیت لیتی ہیں محاذوں کو
کہیں توپیں چلانے سے بھی صاحب کچھ نہیں ہوتا
کہیں غم تا قیامت دوست کر دیتا ہے اپنوں کو
کہیں خوشیاں لٹانے سے بھی صاحب کچھ نہیں ہوتا
کہیں اپنے سخن سے اک بہن دل جیت لیتی ہے
کہیں خنجر چلانے سے بھی صاحب کچھ نہیں ہوتا
کہیں تنہائیاں رتبے عطا کرتی ہیں انساں کو
کہیں محفل سجانے سے بھی صاحب کچھ نہیں ہوتا






