کہیں پلکیں اوس سے دھو گئی کہیں دل کو پھولوں سے بھر گئی
تیری یاد سولہ سنگار ہے جسے چھو دیا وہ سنور گئی
میں سنہرے پتوں کا پیڑ ہوں ، میں خزاں کا حسن و وقار ہوں
میرے بال چاندی کے ہو گئے میرے سر پہ دھوپ ٹھہرگئی
میرا شاعرانہ سا خواب بھی جسے لوگ کہتے ہیں زندگی
انہیں ناخداؤں کے خوف سے وہ چڑھی ندی میں اُتر گئی
تیری آرزو تیری جسجتو میں بھٹک رہا تھا گلی گلی
میری داستاں تیری زلف ہے جو بکھر بکھر کے سنور گئی
اُنہیں دو گھروں کے قریب ہی کہیں آگ لے کے ہوا بھی تھی
نہ کبھی تمہاری نظر گئی نہ کبھی ہماری نظر گئی
نہ غموں کا میرے حساب لے نہ غموں کا اپنے حساب دے
وہ عجیب رات تھی کیا کہیں جو زندگی گزرگئی سو گزر گئی