خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے
کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے
خدا نام ہے ایسے احساس کا
رہے سامنے اور دکھائی نہ دے
مجھے اپنی چادر میں یوں ڈھانپ لو
زمیں آسماں کچھ دکھائی نہ دے
ہنسو آج اتنا کہ اس شور میں
صدا سسکیوں کی سنائی نہ دے
خطا وار سمجھے گی دنیا تجھے
اب اتنی بھی زیادہ صفائی نہ دے
خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے
کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے