اسیر دشت بلا کا نہ ماجرا کہنا
تمام پوچھنے والوں کو بس دعا کہنا
یہ کہنا رات گزرتی ہے اب بھی آنکھوں میں
تمہاری یاد کا قائم ہے سلسلہ کہنا
یہ کہنا چاند اترتا ہے بام پر اب بھی
مگر نہیں وہ شب ماہ کا مزہ کہنا
یہ کہنا ہم نے طوفانوں میں ڈال دی کشتی
قصور اپنا ہے دریا کو کیا برا کہنا
یہ کہنا ہار نہ مانی کبھی اندھیروں سے
بجھے چراغ تو دل کو جلا لیا کہنا
یہ کہنا تم سے بچھڑ کر بکھر گیا تشنہ
کہ جیسے ہاتھ سے گر جائے آئینہ کہنا