کیا بتائیں دوستو دُنیا نے توڑا کِس طرح
ریشۂِ اُمِید سے پِھر دِل کو جوڑا کِس طرح
تُم نے ماضی کو کُریدا ہے تو پِھر اِتنا کہو
زخم ہو گا مُندمِل، جائے گا پھوڑا کِس طرح؟؟
تُم نے تو حد کر ہی دی ہے ظُلم و اِستبداد کی
اِک ذرا سی بات پر دِل کو نِچوڑا کِس طرح
اپنے اپنے ظرف کی ہے بات شِکوہ کیا کریں
ہم نے پایا کِس طرح اور تُم نے چھوڑا کِس طرح
اِک تُمہارے ہِجر کی شب ہے، گُزرتی ہی نہِیں
دوڑتا ہے وصل میں لمحوں کا گھوڑا کِس طرح
کاش دِل میں نرم گوشہ رکھ کے یہ پُوچھے کوئی
وقت، زادہ کِس طرح گُزرا ہے، تھوڑا کِس طرح؟؟
اُس کی نظروں کے مُقابِل جم کے رہنا ہے مُحال
اور سمجھوتہ کرے گا دِل نِگوڑا کِس طرح
ایک طُوفاں بڑھ رہا تھا پریم نگری کی طرف
کیا بتائیں رُخ ہوا کا ہم نے موڑا کِس طرح
قُرب کو ہم نے تُمہارے جان سے رکھا عزِیز
پِھر بھی حسرتؔ بِیچ میں آیا وِچھوڑا کِس طرح