کیا بلبلِ اسیر ہے بے بال و پر کہ ہم
گُل کب رکھے ہے ٹکڑے جگر اس قدر کہ ہم
جیتے ہیں تو دکھاویں گے دعوائے عندلیب
گُل بِن خزاں میں اب کے وہ رہتی ہے مر کہ ہم
یہ تیغ ہے، یہ طشت ہے، یہ ہم ہیں کشتنی
کھیلے ہے کون ایسی طرح جان پر کہ ہم
تلواریں تم لگاتے ہو، ہم ہیں گے دم بہ خود
دنیا میں یہ کرے ہے کوئی درگزر کہ ہم
اس جستجو میں اور خرابی تو کیا کہیں
اتنی نہیں ہوئی ہے صبا دربدر کہ ہم