اے جاتی بہارو یہ مجھے جانا بتا کے
کیا تم کو ملا میرے دروبام سجا کے
سننے کو میری داستاں بے چین تھی تتلی
آئی تھی مسکرا کے گئی اشک بہا کے
اس بے رخی کا شکوہ کہاں زیب ہے ہم کو
کچھ ضابطے بھی ہوتے ہیں تکمیل وفا کے
اتنا خمار حسن کا دیکھا ہی کہاں تھا
تارے سہم رہے ہیں تیرا روپ چرا کے
بکھرے گا چار سو میرا عکس وجود ہی
اے تند ہوا دیکھ میرا نقش مٹا کے
پروانے کو تو مل گئی اک عمر جاوداں
شمع کو کیا ملا اسے شعلوں سے لڑا کے