کیا لکھوں نظر میں کوئی عنوان ہی نہیں
ساحل سے جو ملا دے وہ طوفان ہی نہیں
بجھی بجھی بے آب اور بے نور نگاہیں
ٹوٹے ہوئے دل میں کوئی ارمان ہی نہیں
یہ راستے یہ گلیاں اپنی قیام گاہ ہے
اپنا تو مستقل کوئی مکان ہی نہیں
ہم کس کو سنائیں گے حال دل گداز
کسی دوستی کا اب کوئی امکان ہی نہیں
عظمٰی میرے سخن پہ جو اعتبار کرتا
ایسا مجھے ملا کوئی نادان ہی نہیں