کیا وہ دن تھے جو تیرے ساتھ تھے ہم
ساتھ رہتے تیرے دن رات تھے ہم
اب اداسی میں یہ حالت ورنہ
کبھی لفظوں کے کائنات تھے ہم
پوچھتی تھی وہ جنہیں لوگوں سے
ان سوالوں کے جوابات تھے ہم
تب تلک پاس تھے اپنے سارے
جب تلک ان کے مفادات تھے ہم
دھوپ نے ہم کو جلا کر رکھا
حسرتوں کے ہرے باغات تھے ہم
تھی مباحث میں مہارت لیکن
تیری محفل میں جمادات تھے ہم
ہم نے خطرات مٹائے سب کے
سب کی نظروں میں تو خطرات تھے ہم
سامنے اس کے بات کیوں بگڑی
گفتگو میں بھی تو محتاط تھے ہم
عشق میں اب ہے جنوں کی حالت
غنی پہلے بھلے بقراط تھے ہم