کیا کرے میری مسیحائی بھی کرنے والا
Poet: Perveen Shakir By: TARIQ BALOCH, HUB CHOWKIکیا کرے میری مسیحائی بھی کرنے والا
زخم ہی یہ مجھے لگتا نہیں بھرنے والا
زندگی سے کسی سمجھوتے کے با وصف اب تک
یاد آتا ہے کوئی مارنے مرنے والا
اُس کو بھی ہم تیرے کوچے میں گزار آئے ہیں
زندگی میں وہ جو لمحہ تھا سنورنے والا
اُس کا انداز سخن سب سے جُدا تھا شاید
بات لگتی ہُوئی، لہجہ وہ مُکرنے والا
شام ہونے کو ہے اور آنکھ میں اِک خواب نہیں
کوئی اس گھر میں نہیں روشنی کرنے والا
دسترس میں ہیں عناصر کے ارادے کس کے
سو بکھر کے ہی رہا کوئی بکھرنے والا
اسی اُمیّد پہ ہر شام بجھائے ہیں چراغ
ایک تارا ہے سرِ بام اُبھرنے والا
More Sad Poetry






