کیا کہا؟ بھول گئے ہیں اس کو؟
ہم بھی کیا بھول گئے ہیں اس کو؟
ہاں ِ وہ اک داغ پرانا دل کا
مٹ گیا! بھول گئے ہیں اُس کو
یار٬ غم خوار، وہ ساتھی اپنا
دل کہ تھا۔ بھول گئے ہیں اُس کو
وہ؟ جو سینے میں جلا کرتا تھا
جل بجھا! بھول گئے ہیں اُس کو
شبِ تار ایک دیا اور ہوا
جو ہوا، بھول گئے ہیں اُس کو
وہ گیا ہے تو رہا کیا باقی
جو رہا، بھول گئے ہیں اُس کو
پوچھنے والوں نے پوچھا اکثر
کہہ دیا، بھول گئے ہیں اُس کو
جا بجا لکھتے تھے اک نام جو ہم
بارہا بھول گئے ہیں اُس کو
یاد کرنے پہ ہمیں یاد آیا
یاد تھا، بھول گئے ہیں اُس کو