کیا ہوا زیست خوشی پا نہ سکی قسمت سے
یہ جوانی رہی محروم ہر اک راحت سے
آہ بھرتے ہیں تو تذلیل ہوا کرتی ہے
لب پہ آہوں بھرے اب گیٹ نہ آنے پائیں
غم ذدہ لوگوں سے کرتا ہے بھلا کون وفا
چھوڑ کے رنج و الم شوخ ترانے گائیں
وہ نہیں ملتا جو ہم چاہیں بڑی حسرت سے
کیا ہوا زیست خوشی پا نہ سکی قسمت سے
مصلحت کے بھی تقاضے ہیں مرے پیش نظر
غم چھپا کر مجھے اوروں کے لیے جینا ہے
موت آ جائے تو مٹ جائیں سبھی درد مرے
اپنے گلشن کے لیے زندہ مگر رہنا ہے
میں نے سب پھولوں کو پالا ہے بڑی محنت سے
کیا ہوا زیست خوشی پا نہ سکی قسمت سے
یہ جوانی رہی محروم ہر اک راحت سے