کیا ہوا ساتھ اس کے سفر یاد آتا ہے
چھوڑ گیا ہے وہ مجھے مگر یاد آتا ہے
پردیس رہنے والے ہم پردیسیوں کو جب
مِلے کوئی خوشی تو گھر یاد اتا ہے
جوانی کی اِس بے خوف دنیا کے بیچ
بچپن کا وہ میٹھا میٹھا ڈر یاد آتا ہے
محفل میں میرا نام سنتے ہی سُہیل
دیکھنا اُس کا اِدھر اُدھر یاد آتا ہے