چھو سکتا نہیں تجھے تیرا ہو سکتا نہیں
تجھ کو پا سکتا نہیں تجھ کو کھو سکتا نہیں
جب سے تجھ سے ملا ہو ں میری جان میرا یہ حال ہے
سکون سے جاگ سکتا نہیں چین سے سو سکتا نہیں
جب سے تیری خواہش اس دل میں ہوئی موجزن
کوئی اور تخم خواہش دل میں بو سکتا نہیں
غم سے نڈھال ہو ا درد سے بُرا حال ہے مگر
جب سے تو آنکھ میں آ بسا میں رو سکتا نہیں
پوری نہیں ہوتی وہ خواہش جو دل کا چین ہو
کہنے کو اس دنیا میں کیا ہو سکتا نہیں
فقط مجھ سے اتنا کہا اور وہ پھر جدا ہو گیا
ہوس سی گندگی کو میں دل میں سمو سکتا نہیں
ہر کوئی تو خطا کار ہے کنول نہ ہو مجھ سے جدا
گندگیِ نفس کو کوئی بھی دھو سکتا نہیں