کہا سے چلے تھے اور کہا آ گئے
جن پے مان تھا وہی ٹھکرا گئے
ھیں چاروں طرف ہزاروں راستے مگر
وہ جاتے جاتے منزل کے نشان مٹا گئے
شکوا کرتے نصیب سے یا گلہ کرتے تقدیر سے
ہم تو جہاں سے چلے تھے پھر وہی آ گئے
ریت کے ریزو کی طرح بکھر ہم گئے
کیسے سمیٹتے خود کو سوچ کر زندگی سے ہار گئے