کیسے کیسے بہانوں سے میں تجھے یاد کروں
روبرو کہیں، تصور کہیں آباد کروں
بات کوئی چھڑی ہو یا خاموش رہوں محفل میں
دل رہے مضر، اب تیری بات کروں
شام اترے آنکھوں میں پھر تیری خوشبو لئے ہوئے
گمان ریے بھٹکتا، اب کیسے دل کو شاد کروں
ہاں یہ کرب انوکھا یے، شب ڈھلے جو اترتا ہے
منجمد سی بےبسی لئے ہوئے، میں کیسے اپنی رات کروں
ورد کرتے دل کو بہلاؤں بھی تو کیسے
تیرے ہجر کے طلسم سے میں کیسے خود کو آزاد کروں