میں کیوں اداس رہتی ہوں
میں کیوں اداس رہتی ہوں
جب کہ میں ہر اک لمحہ
اپنے آس پاس ہی رہتی ہوں
اک گونہ گوں خلش ہے جو
کانٹوں کی طرح سے چبھتی ہے
نرم گرم یا سخت سرد
ہواؤں کے سنگ سنگ چلتی ہوئی
اک لہر سی اٹھتی ابھرتی ہے
جو دل کے پار اترتی ہے
دل کے نہاں خانوں سے نکل کر
میری روح کو چیرتی ہوئی
دائروں کی شکل میں بڑھتی ہے
جو میرا طواف کرتی ہے
میں خود میں سمٹ جاتی ہوں
جب یہ لہر میرے اطراف میں
اک ماؤرائی جال کا
ان دیکھا سا انجانہ سا
اک تانہ بانہ بنتی ہے
دائروں کا یہ ہالہ
ان دیکھے حصار کی طرح
میرے اطراف میں رہتا ہے
جو مجھ کو میرے ہی اندر
محصور بنائے رکھتا ہے
اور پھر یہی حصار
مجھے وہ راستہ دکھاتا ہے
اس جہاں میں لے جاتا
جو میرے دل کو بھاتا ہے
وہ تصویر بناتا ہے جس کا عکس
مجھے اکثر بس میری شبیہ دکھاتا ہے
اور وہ تصویر دکھاتا ہے
جس تصویر کو میرا تخیل
پل پل دیکھنا چاہتا ہے
باہر کی دنیا سے کٹ کر
دل اپنی بزم سجاتا ہے
پھر بھی میں دل کی دنیا میں
رہتے بستے بھی ڈرتی ہوں
کہ کوئی مجھے میرے اندر سے
آ کر باہر نہ لے جائے
کہیں میرے حصار الفت کو
کسی کی نظر نہ لگ جائے
اپنے اندر بیٹھی بیٹھی
اندیشے سوچتی رہتی ہوں
بس یہی وجہ ہے کہ اکثر
اس ڈر کو کوستی رہتی ہوں
اسی لئے تو اکثر ہی
خود سے یہ پوچھتی رہتی ہوں
میں کیوں اداس رہتی ہوں
میں کیوں اداس رہتی ہوں
گرچہ میں ہر اک لمحہ
اپنے آس پاس ہی رہتی ہوں