کاش ایک بار ہمیں یہ موقعہ مل جائے
یونہی چلتے چلتے تو ہمیں مل جائے
ہم اپنی خطاؤں پر تجھ سے معافی مانگ لیتے
ندامت کے آنسو نہ پلکوں پر میری ہوتے
ہم دوستوں کے سامنے تیرا مذاق نہ اڑاتے
تم وہاں سے اٹھ کر روتے ہوئے نہ چلے جاتے
کلاس میں جب تم لیکچر لینے آتے تھے
کرسی کینچھ کر ہم تجھے نیچے گرا دیتے تھے
جوانی کے زمانےمیں ہم اتنے مغرور کیوں تھے
سیدھے منہ تجھ سے کبھی بات نہیں کرتے تھے
تم ہمارے سارے ستم خوشی خوشی سہتے
پھر بھی تمہارے ماتھے پر کبھی بل نہ آتے
کاش آج ہم پر اپنا ایک احسان کر کے چلے جاتے
یوں روٹھ کر ایسے نہ تم دنیا سے رخصت ہو جاتے