اب وہ لفظ کیوں لکھوں؟
اب وہ حرف کیوں لکھوں؟
جو کاغذ پہ نقش ہوکر
اپنا حُسن ہی کھو بیٹھے
میں وہ لفظ کیوں لکھوں؟
میں وہ حرف کیوں لکھوں؟
جو تمہاری آنکھوں کو
منور ہی نا کر سکے
جو دل کے آنگن میں
گلاب ہی نا کھلا سکے
میں وہ لفظ کیوں لکھوں؟
میں وہ حرف کیوں لکھوں؟
جس کے آئینے میں
تم اپنا چہرہ نا پہچانوں
دروازے پر خاموشی کا پہرہ
آنکھوں میں ویرانی
دل میں بھی سناٹے
نیندیں روٹھی روٹھی
امیدیں بھی ذرہ ذرہ
خواب بکھرے بکھرے
خیالات بھی منتشر
کوئی وصل کا پہلو نہیں
کوئی ہجر کا ماتم نہیں
کوئی آس کا جگنو نہیں
کوئی درد کی خوشبو نہیں
اب وہ لفظ کیوں لکھوں؟
اب وہ حرف کیوں لکھوں؟