کیوں مجھے روز آزماتے ہو
اک نیا زخم کیوں لگاتے ہو
آخر اس دل کی کیا خطا ٹھہری
جو اسے اس قدر ستاتے ہو
میری مطلوب گاہوں سے کیوں
کس لئے دور چلے جاتے ہو
کاش تم خود یہ جان جاتے کہ
کیوں ہمیں اتنا یاد آتے ہو
کیوں میرے دل میری نگاہوں کو
ایک تم ہی تو ہو جو بھاتے ہو
آخر عظمٰی تم ایسی ہی باتیں
کیوں ہر اک بات میں دہراتے ہو