کہتا ہے تو کہ اب تجھے مجھ سے پیار نہیں
کیوں آنسوؤں پہ اپنے تجھے اختیار نہیں
کھاتا ہے تو مجھ سے نہ ملنے کی قسمیں
خود ہی توڑ دیتا ہے پھر دنیا کی رسمیں
پاس رہ کر کرتا ہے مجھ سے تو جدائی کی باتیں
بسا رکھی ہیں دل میں اپنے میری ہی محبتیں
چھوڑ دیا ہے تو نے اب تو میرا رہ تکنا بھی
پاس رکھا ہے اپنے میرے نام کا کنگنا بھی
تو نے تو جلا ڈالے ہیں سارے خط میرے
چومتا بھی ہے پھر راکھ ان کی صبح سویرے
کہتے ہو میری یاد اک پل تجھ کو آتی نہیں
محفلیں غیروں کی بھی تجھ کو بھاتی نہیں
میری گلی سے گزرنا بھی گوارا نہیں تجھ کو
کیوں شہر میرا پھر تو چھوڑنے کو تیار نہیں