گئے موسموں کے عذاب
کچھ مرجھائے ہوئے گلاب
زخم زخم ایک اِک باب
اپنے جیون کا نصاب
ہم نے جھیلے وہ عذاب
جن کی حد ہے نہ حساب
تقدیر میں لکھا تھا چناب
زیست کی ناؤ ہوئی غرقاب
بےرُخی رہے گی کب تک؟
تم کتنا پاؤ گے ثواب ؟
سچ بولنے والے ہار گئے
جھوٹوں نے کر دیا لاجواب
تم پھر ہوش اُڑا بیٹھے؟
کب میں نے اُلٹی ہے نقاب؟
رعنا نے پائیں تعزیریں
دیکھا تم کو پانے کا خواب