زندگی، کہنے کو، فردوسِ نظر گزری ہے
دل سے پوچھے کوئی، جس طرح مگر گزری ہے
میں گھِرا بیٹھا ہوں ماحول کی تاریکی میں
گو اِسی راہ سے سو بار سحر گزری ہے
یوں بھی گزری ہے غریب الوطنی میں اکثر
رات تو رات ہے، مشکل سے سحر گزری ہے
رونقِ زیست بھی گزری ہے انہیں راہوں سے
دُور ہی دُور سے گزری ہے، مگر گزری ہے
چاند، تاروں کو بھی رشک آیا ہے قسمت پہ مری
یوں بھی اِک رات، کبھی تابہ سحر گزری ہے