گزر گئے کئی برس غموں کا اعتکاف کرتے کرتے
دُنیا کو دیتے دیتے اور مجھے معاف کرتے کرتے
مجھے آئینہ کرنے والے! یہ صدیوں کے جالے ہیں
تم بھی گرد ہو جاؤ گے مجھے صاف کرتے کرتے
یہاں عائد ہیں پابندیاں سانسوں پہ بھی
خاک ہو جاؤ گے انسانیت سے انصاف کرتے کرتے
یہ کیا کیا ‘ یہاں سے نکال کر وہاں جا گرایا
خود زندگی میں آ بسے ‘ تمنا کے خلاف کرتے کرتے
یہ ناممکن نہ ہو کہیں‘ سوچ لے پھر سے
ہوتا ہے مشکل بڑا بھری دنیا میں طواف کرتے کرتے
وفاؤں کا تسلسل کچھ خوب ہے محبت کے بیانوں میں
خدشہ ہے‘ رُخ پلٹ نہ جائے اعتراف کرتے کرتے
چاکِ بھروسہ کیوں سی نہ لوں میں انمول
دیں ہیں رشتوں نے بھی رنجشیں غلاف کرتے کرتے