کیوں نہ آج پھر سے تجھے پکارا جائے
یہ دن تیری گلیوں میں گزرا جائے
کُچھ بیتے پل بلائے جائیں
کُچھ نئی یادوں کو سجایا جائے
کُچھ باتیں تم سنانا کُچھ باتیں ہم سے سننا
کُچھ قصے اور بنائیں کُچھ پلوں کو چرایا جائے
جدا ہو گیے تھے کبھی جو دو نادان دل
پاس آ کے اِن کو پھر سے ملایا جائے
وہ رنجشیں اور نفرتیں
جو اب دلوں کا حصہ ہیں
پیار سے اِن کو ملایا جائے
ہم تم ساتھ رہیں پر پل
اور اِن لمحوں کو مہکایا جائے
روٹھ گیے تھے جو کبھی تم ہم سے
پاس آؤ تم ہمارے تمہیں پھر منایا جائے
یہ جو ضد پہ اڑا ہے پاگل دل
اِس پھر سے سجایا جائے
کیوں نہ آج پھر سے تجھے پکارا جائے