گُزرے کل سا لگتا ہو جب آنے والا کل
ایسے حال میں رہنے سے تو بہتر ہے کہ چل
کرتی ہیں ہر شام یہ بِنتی ، آنکھیں ریت بھری
روشن ہو اے امن کے تارے، ظُلم کے سُورج ، ڈھل
اپنا مطلب کھو دیتی ہے دِل میں رکھی بات
رونا ہے تو کُھل کے رو اور جلنا ہو تو ، جل
لمحوں کی پہچان یہی ہے ، اپڑتے جاتے ہیں
آنکھوں کی دہلیز پہ کیسے ٹھہر گیا ، وہ پَل !
عشق کے رستے لگ جائیں تو لوگ بھلے چنگے
ہوتے ہوتے ہو جاتے ہیں ، دیوانے ، پاگل !
موسم کی سازش ہے یا پھر مٹی بانجھ ہوئی !
پیڑ زیادہ ہوتے جائیں ، گھٹتا جائے پھل!
جُھکی جُھکی آنکھوں کے اُوپر بوجھل پلکیں تھیں
لیکن کیسے چُھپ سکتا تھا ! کاجل ہے کاجل !
زر داور کے دستِ ستم میں دونوں گِروی ہیں
مزدوروں کا خُون پسینہ ، دہقانوں کا ہَل !
بُجھتے تاروں کی جِھلمل میں اوس لرزتی ہے
امجد دُنیا جاگ رہی ہے تُو بھی آنکھیں مَل