گُم ہوا جاتا ہوں غم کی سسکیوں کے درمیاں
نیند تو آتی نہی اب تو فقط شب خیزیاں
جھیلنا پڑتا ہے صدیوں رائگانی کا عذاب
اب ہو ں بیٹھا سوچتا کیا زندگی سُودو زیاں
اپنے رہبر کی عداوت بس مجھے یوں کھا گئی
کرچی کرچی روح میں چُنتا ہوں بس اب کرچیاں
اپنی فطرت کے وہ ہاتھوں کس قدر مجبور تھا
اُس کو تو فُرصت نہ تھی ہوتی نہ کیونکر دوریاں
دل کا دیا گل ہو چکا اندھیرا چھایا ہر طرف
ڈھونڈتا ہوں اب بھی اُس کو ہے جو اندر ھی نِہاں