گیا ہے جب سے ‘ جانے کیوں اِدھر نہیں آتا
کتنے ہی سویرے ہوئے‘ ہر سحر نہیں آتا
مل ہی جاتا تھا قرار پل دو پل ہی سہی
کہ اب تو وہ بھی پل بھر نہیں آتا
روتے ہیں قدرت کے لکھے نصیبوں پر
رونا ہم کو اِ س پر نہیں آتا
دُھندلی کر دی ہیں آنکھیں آنسوؤں نے
کہ اب توکچھ بھی نظر نہیں آتا
مُفید ہے تیرا غم ‘جب سے ملا ہے
کوئی بھی آسیب میرے گھر نہیں آتا