ھو سکے تم سے تو بھلا دو مجھ کو
پتھر بے لکیر تو نہیں مٹا دو مجھ کو
مجھ سے ھر روز ھی شکایت رہتی ہے تمہیں
تم کیا ہو پھر اک بار بتا دو مجھ کو
اتنا کیوں اکھڑے رہتے ہو مجھ سے میری جاں
بنا جرم کے ہی مانتے ہیں جرم کوئی تو سزا دو مجھ کو
بن نہیں سکا اب تک کوئی بھی رشتہ تم سے
برے ہیں ھم اتنے ھی تو سمندر میں بہا دو مجھ کو
روز روز رات بھر ترسنے سے آخر کیا فایدہ
تنگ آ گئے ھو مجھ سے تو پھر آگ لگا دو مجھ کو
تم سے بچھڑ جائیں گے تو برا مانو گے تم
آج کہ دو جو کہنا ہے ارے کچھ تو سنا دو مجھ کو
یوں تو زندگی کا شعلہ سرد پڑ گیا ہے تنویر
سلگ جاوں جو اک بار ھاتھ لگا دو مجھ کو