ناواقف و شناسا ذرا بھی نہیں لگی
خوش بھی نہیں ہوئی وہ خفا بھی نہیں لگی
خواہش کی جلتی دھُوپ کی رُت بھی گزر گئی
یخ بستہ موسموں کی ہوا بھی نہیں لگی
دُکھ بھی نفس کی آنکھ کا کاجل نہ بن سکا
اچھی بدن پہ سُکھ کی قبا بھی نہیں لگی
شاخِ خلش پہ سُوکھ گئی لمس کی کلی
ہاتھوں پہ آرزو کی حنا بھی نہیں لگی
مہکا نہیں سکون کی ساعت کا کوئی پھول
اس سال دوستوں کی دُعا بھی نہیں لگی
مت پوچھ کس خیال کا بادل تنا رہا
صحرا میں تیز دھوپ ذرا بھی نہیں لگی
دستک تو نصف شب درِ احساس پر ہوئی
مشفق سپردگی کی صدا بھی نہیں لگی
احمد تمام عمر وفا کا سفر کیا
دشتِ اَنا میں ضربِ خطا بھی نہیں لگی