بے رنگ دن
بے موج شام
تیرے سب نشان
میرے ارد گرد بکھرے بکھرے
دھڑکن سے ہر اک سانس تک
میری خاموشی
سینے میں گونج رہی ہے
سب حادثے جو دل کی تہہ میں ہیں
اُن کو بھلاؤں کس طرح؟
حَبس گھٹتا ہی نہیں
بھلا کب تلک میں
تیرے دھیان کو
اپنی روح میں بسا کر
تجھ سے گفتگو کرتا رہوں؟
سانس سانس میں میری
اک بے بسی سی ہے
اک چبھن سی ہے
تیری کمی سی ہے
تنہائی کے یہ سلسلے
آخر کب تلک سنبھالوں؟
عمر بیت جاتی ہے
چاند ڈوب جاتا ہے
جبر کا کڑا لمحہ
شامِ ہجر کا دریا
مجھ میں ڈوب جاتا ہے
تم نہیں آتے
اور رات جیت جاتی ہے
ہجر کی بوند بوند اُداسی
مجھ میں ڈوب جاتی ہے