ہجر کی زد میں ستاروں کو کبھی دیکھا ہے
زندگی! دشت کے ماروں کو کبھی دیکھا ہے
لوگ موسم کی طرح آتے چلے جاتے ہیں
آنکھ میں قید نظاروں کو کبھی دیکھا ہے
انکی مٹھی میں دعاٶوں کے سوا کچھ بھی نہیں
اجڑے ویران مزاروں کو کبھی دیکھا ہے
کسطرح ٹوٹ کہ پت جڑ سے گلے ملتے ہیں
نٸے موسم کی بہاروں کو کبھی دیکھا ہے
یار مخلص ہوں تو خوشیوں کی ہوا چلتی ہے
مرے اشکوں کی قطاروں کو کبھی دیکھا ہے
انکا شکوہ ہے کہ صدیق نہیں ملتے یہاں
تم نے اس شہر میں غاروں کو کبھی دیکھا ہے
آج پھر روزن ِزنداں میں کوٸی چاپ نہیں
ایسی خاموش پکاروں کو کبھی دیکھا ہے
شب دیجور کے ماتھے پہ سحر پھوٹے گی
سدرہ قدرت کے اشاروں کو کبھی دیکھا ہے