ہر ایک شکل میں صورت نئی ملال کی ہے
Poet: عرفان ستار By: Ghani, Islamabadہر ایک شکل میں صورت نئی ملال کی ہے 
 ہمارے چاروں طرف روشنی ملال کی ہے 
 
 ہم اپنے ہجر میں تیرا وصال دیکھتے ہیں 
 یہی خوشی کی ہے ساعت، یہی ملال کی ہے 
 
 ہمارے خانۂ دل میں نہیں ہے کیا کیا کچھ 
 یہ اور بات کہ ہر شے اسی ملال کی ہے 
 
 ابھی سے شوق کی آزردگی کا رنج نہ کر 
 کہ دل کو تاب خوشی کی نہ تھی ملال کی ہے 
 
 کسی کا رنج ہو، اپنا سمجھنے لگتے ہیں 
 وبال جاں یہ کشادہ دلی ملال کی ہے 
 
 نہیں ہے خواہش آسودگیٔ وصل ہمیں 
 جواز عشق تو بس تشنگی ملال کی ہے 
 
 گزشتہ رات کئی بار دل نے ہم سے کہا 
 کہ ہو نہ ہو یہ گھٹن آخری ملال کی ہے 
 
 رگوں میں چیختا پھرتا ہے ایک سیل جنوں 
 اگرچہ لہجے میں شائستگی ملال کی ہے 
 
 عجیب ہوتا ہے احساس کا تلون بھی 
 ابھی خوشی کی خوشی تھی، ابھی ملال کی ہے 
 
 یہ کس امید پہ چلنے لگی ہے باد مراد؟ 
 خبر نہیں ہے اسے، یہ گھڑی ملال کی ہے 
 
 دعا کرو کہ رہے درمیاں یہ بے سخنی 
 کہ گفتگو میں تو بے پردگی ملال کی ہے 
 
 تری غزل میں عجب کیف ہے مگر عرفانؔ 
 درون رمز و کنایہ کمی ملال کی ہے






