ہمیں ہر زخم سینا آ چکا ہے
کہ ہر حالت میں جینا آچکا ہے
تمہیں کھو کر ہمیں جینا پڑا تو
ہمیں مر مر کے جینا آ چکا ہے
کہا جائے گا ہم کو بےوفا بھی
ہمیں یہ درد پینا آ چکا ہے
دل شکستہ اور یہ مسکرانا
ہمیں ہر فن قرینہ آچکا ہے
خزاں کا باب عظمٰی بند کر دو
بہاروں کا مہینہ آ چکا ہے