ہر دوا، درد کو بڑھا ہی دے
اب تو اے دل اُسے بُھلا ہی دے
لٹُنے والے سے یُوں گریز نہ کر
کیا خبر، وہ تُجھے دُعا ہی دے
جس کے چہرے پہ میری آنکھیں ہیں
وہ مجھے طعنِ کم نگاہی دے
یہ بھی اِک شیوہِ رفاقت ہے
جانے والوں کو راستہ ہی دے
جانکنی کے عذاب سے نکلوں
آخری تیر بھی چلا ہی دے
اب تو جیسے فراز بادِ مراد
زندگی کا دِیا بُجھا ہی دے