ہر صبح تنہائی میں ڈوبی ہوئی شام ہو گئی ہے
ہر سحر اندھیری رات کے نام ہو گئی ہے
کون دے گادل میں جگہ اپنائیت کو
بے وفائی‘بے رُخی جو کہ اب عام ہو گئی ہے
زمانے میں ممکن ہی نہ رہی ہے چاہت
ہر کوشش محبت کی ناکام ہو گئی ہے
کوئی بھی نہیں دیتا تسلّی کسی کو یہاں
ہر زندگی وحشت کی غلام ہو گئی ہے
ملتی ہے نصیبوں سے اِس جہاں میں
خوشی اب بشر کے لیے انعام ہو گئی ہے
مانا کہ مُنہ مانگی موت حرام ہے
تو پھر زندگی کیوں حرام ہو گئی ہے؟