ہر نغمۂ پر درد ہر اک ساز سے پہلے
ہنگامہ بپا ہوتا ہے آغاز سے پہلے
دل درد محبت سے تو واقف بھی نہیں تھا
جاناں ترے بخشے ہوئے اعزاز سے پہلے
شعلوں پہ چلاتی ہے محبت دل ناداں
انجام ذرا سوچ لے آغاز سے پہلے
اب میری تباہی کا اسے غم بھی نہیں ہے
جس نے مجھے چاہا تھا بڑے ناز سے پہلے
شاہین وہ کہلانے کا حق دار نہیں ہے
جو سوئے فلک دیکھے نہ پرواز سے پہلے
اب راز کی باتیں نہ بتا دے وہ کسی سے
یہ خوف نہیں تھا کبھی ہم راز سے پہلے
تھی میر تقی میرؔ کی نوحہ گری مشہور
افضلؔ کی سسکتی ہوئی آواز سے پہلے