ہمارا کیا ہے کہ ہم تو چراغِ شب کی طرح
اگر جلے بھی تو بس اتنی روشنی ہوگی!
کہ جیسے تُند اندھیروں کی راہ میں جگنو
ذرا سی دیر کو چمکے چمک کے کھو جائے
پھر اِس کے بعد کسی کو نہ کچھ سُجھائی دے
نہ شب کٹے نہ سُراغ سحر دکھائی دے!
ہمارا کیا ہے کہ ہم تو پسِ غبارِ سفر
اگر چلے بھی تو بس اِتنی راہ طَے ہوگی!
کہ جیسے تیز ہواؤں کی زد میں نقشِ قدم
ذرا سی دیر کو اُبھر کے مِٹ جائے
پھر اِس کے بعد نہ منزل نہ رہگذار ملے!
حدِ نگاہِ تلک دشتِ بے کنار ملے!!
ہماری سَمت نہ دیکھو کہ کوئی دیر میں ہم
قبیلئہ دِل و جاں سے بچھڑنے والے ہیں
بسے بسائے ہوُئے شہر اپنی آنکھوں کے
مثالِ خانۂ ویراں اُجڑنے والے ہیں
ہوَا کا شور یہی ہے تو دیکھتے رہنا
ہماری عُمر کے خیمے اُکھڑنے والے ہیں
اب اِس کے بعد تُمہارے لیے ہیں رنگ سبھی
سبھی رتیں سبھی موسم تمہی سے مہکیں گے!
ہر ایک لَوحِ زماں پر تمہارے نام کی مُہر
ہر ایک صُبح تمہاری جبیں پہ سجدہ گذار
طلوُعِ مہرِ درخشاں‘ فروغِ ماہِ تمام!
یہ رنگ و نوُر کی بارش تمہارے عہد کے نام
اَب اِس کے بعد یہ ہو گا کہ تُم پہ ہونا ہے
ورُودِ نعمت عُظمٰے ہو یا نزولِ عذاب!
تُمہی پہ قرض رہے گی تمہارے فرض میں ہے
دِلوں کی زخم شُماری غمِ جہاں کا حِساب
گناہِ وصل کی لذّت کہ ہجرتوں کا ثواب؟
تمام نقش تمہی کو سنوارنا ہوں گے!
رگوں میں ضبط کے نشتر اُتارنا ہوں گے!
اب اِس طرح ہے کہ گذرے دنوں کے ورثے میں
تمہاری نذر ہیں ٹکڑے شکستہ خوابوں کے
جلے ہوئے کئی خیمے دریدہ پیراہن
بُجھے چراغ لہو انگلیاں فگار بدن
یتیم لفظ ردا سوختہ انا کی تھکن
تُمہیں یہ زخم تو آنکھوں میں گھولنا ہوں گے
عذاب اور بھی پلکوں پہ تولنا ہوں گے
وہ یوُں بھی ہے کہ اگر حوصلے سلامت ہوں!
بہت کٹھن بھی نہیں رہگذارِ دشت جنوُں
یہی کہ آبلہ پائی سے جی نہ اُکتائے!
جراحتوں کی مشقّت سے دِل نہ گھبرائے!
رگوں سے درد کا سیماب اس طرح پھوٹے
نشاطِ کَرب کا عالَم فضا پہ طاری ہو!
کبھی جو طبل بجے‘ مقتلِ حیات سجے!
تو ہر قدم پہ لہوُ کی سبیل جاری ہو!
جو یوُں نہیں تو چلو اب کے اپنے دامن پر
بہ فیضِ کم نظری داغ بے شُمار سہی!
اُدھر یہ حل کہ موسِم خراج مانگتا ہے
اِدھر یہ رنگ کہ ہر عکس آئینے سے خجِل
نہ دل میں زخم نہ آنکھوں میں آنسوؤں کی چمک
جو کچھ نہیں تو یہی رسمِ روزگار سہی!
نہ ہو نصیب رگِ گُل تو نوکِ خار سہی
جو ہو سکے تو گریباں کے چاک سیِ لینا!
وگرنہ تُم بھی ہماری طرح سے جی لینا