ہمارا ہونا
سمندر میں جزیروں سے
کسی پتھریلے بندی خانے میں
تنہا اسیروں سے
ہم، آوازوں کی بستی میں
سدا محرومِ گویائی
ہمارے لہجے کی قسمت
ہمیشہ ناشناسائی
ہماری گفتگو کا ایک ہی انجام
رسوائی
ہر اک اظہار اپنا ہے تماشا،
سب تماشائی
سوا، تنہائی یادوں میں
کوئی منظر نہیں رہتا
کہ ہم جو گھر میں بس بھی جائیں
تو وہ گھر نہیں رہتا
مقدر خاک،
رہنا بے وطن تقدیر ہے اپنی
قبیلہ اور نہ کوئی خانداں زنجیر ہے اپنی
کہیں پر تذکرہ جو ہو ہمارا لازمی لکھنا
تو نامعلوم لکھنا
ناشناسا
اجنبی لکھنا