ہماری لبریز محبت کا ہمیں ثمر دیا ہوتا
ارمان و امید کو اُجلتا گھر دیا ہوتا
ساری عمر تو نہ مانگی تھی ہم نے
پیار ہمیں بس اِک ہی نظر دیا ہوتا
حقیقت نہ دے سکے ہمیں سکوں کی تم
سکوں کا سپنا ہی ہمیں او بے خبر دیا ہوتا
دو آنسو ہمارے لیے بھی بہا دیتے کبھی
ہم نے کب کہا ٗ خونِ جگر دیا ہوتا
لوگوں کی سنتے رہے تم ہر نئے دن
دھیان تھوڑا میری بھی بات پر دیا ہوتا
دنیا سنور جاتی تمہارے پیار سے ہماری
تم نے تحفۂ پیار ہمیں اگر دیا ہوتا
کاش آتا تمہیں ہم پر مر مٹ جانا
قدرت نے تمہیں چاہت کا گہر دیا ہوتا
یا کاش ملتا ہمیں بھی تم سا دل
خدا نے دلِ سنگدل یا بے اثر دیا ہوتا