ہمدرد ہے تو ایسی سزا دے رہا ہے کیوں ؟
جھوٹی تسلیوں کی رِدا دے رہا ہے کیوں ؟
اب کوئی میرے گھر کا دریچہ کھلا نہیں
جھونکا ہوا کا مجھ کو صدا دے رہا ہے کیوں ؟
بن کے بھی میرا بن نہ سکا یہ بھی کم نہیں
بے ا عتباریوں کی سزا دے رہا ہے کیوں ؟
جو دب چکی تھیں وقت کی برفیلی راکھ میں
چنگاریوں کو اب وہ ہوا دے رہا ہے کیوں ؟
لمحہ جو گِر گیا تھا کبھی میرے ہاتھ سے
جینے کی آج مجھ کو ادا دے رہا ہے کیوں ؟
وہ مہرباں ہے یا کوئی نا مہربان ہے
جو جا چکا تھا اُس کا پتہ دے رہا ہے کیوں ؟
جب جانتا ہے مجھ کو ملی کیسی زندگی
پھر زندگی کی مجھ کو دعا دے رہا ہے کیوں ؟
ہے اجنبی تو پھر کیوں اُسے فِکر ہے مری
عذراؔ وہ دردِ دِل کی دوا دے رہا ہے کیوں ؟