کچھ ہونٹ بھی
سل گئے ہیں
آنکھوں میں
اشک ہیں
پر پلکوں پے
رک گئے ہیں
لبوں پے
ہنسی تو ہیں
پر دل چھلس
گئے ہیں
یہ کیسا
امتحان زندگی ہیں
جہاں جی
تو رہے ہیں
پر اندر ہی اندر
مر گئے ہیں
وہ بھی خاموش
ہو گیا ہیں
ہمہاری طرف
دیکھ کر کہہ
ہمہاری
خاموشی میں
طوفان ڈھل گئے ہیں