ہمیں تقدیر گر ہونا پڑے گا
زمیں کو مختصر ہونا پڑے گا
ہر اک منزل قدم چومے گی اپنے
یقیں کو ہمسفر ہونا پڑے گا
خزاں میں بھی سدا شاداب ہو جو
ہمیں ایسا شجر ہونا پڑے گا
جو جڑ سے تیرگی کو کاٹ ڈالے
ہمیں نورِ سحر ہونا پڑے گا
تعلق عمر بھر رکھنا ہے قائم
تدبّر سر بسر ہونا پڑے گا
سکونِ زیست حسنِ ظن کے دم سے
گماں کو خوش نظر ہونا پڑے گا
نظر رکھنی ہے مستقبل پہ عاشی
مگر آئینہ ور ہونا پڑے گا