ہمیں تو اِب بھی وہ گُزرا زمانہ یاد آتا ہے
تمہیں بھی کیا کبھی کوئی دیوانہ یاد آتا ہے
ہوائیں بھی تھی بارش بھی تھی طوفان بھی تھا لیکن
تیرا ایسے میں بھی وعدہ نبھانا یاد آتا ہے
گُزر چُکی تھی بہت رات باتوں باتوں میں
پھر اُٹھ کے وہ تیرا شمع بُجھانا یاد آتا ہے
چاہتیں کتنی دیکھی ہیں پر مجھے مسعود
کسی کا جُھکا پر وہ زولفیں گرانا یاد آتا ہے
ہمیں تو اِب بھی وہ گُزرا زمانہ یاد آتا ہے
تمہیں بھی کیا کبھی کوئی دیوانہ یاد آتا ہے