ہمیں خبر ہے وہ کیوں ہم سے اب نہیں ملتا
یہاں کسی سے کوئی بے سبب نہیں ملتا
پھر آفتاب کہاں اپنی روشنی بانٹے
نئے چراغوں میں حسن طلب نہیں ملتا
بتا رہی ہیں ادیبوں کے گھر کی تہذیبیں
وراثتوں میں سبھی کو ادب نہیں ملتا
میں جلنے لگتا ہوں تنہائیوں کے دوزخ میں
کبھی وہ میری ضرورت پہ جب نہیں ملتا
اداس مت ہو جو حاصل نہ کر سکا اس کو
کبھی کسی کو زمانے میں سب نہیں ملتا
ہے ذات آپ کی تخلیق دو جہاں کا سبب
نہ ملتے آپ ہمیں ہم کو رب نہیں ملتا